Tuesday 15 September 2020

مٹی کی فوج - Terracotta Army

 

 

مٹی کے مجسموں کی یہ فوج (Terracotta Army) چین کے صوبے شانژی میں اُس وقت دریافت ہوئی جب کچھ کسان اس علاقے میں ایک کنوئیں کی کھدائی میں مصروف تھے۔ کھدائی کے دوران انہیں اس مقام سے مٹی کے مجسموں کے ٹوٹے ہوئے اعضاء کے علاوہ مقبرے کی اینٹیں نظر آئیں۔ اس دریافت کے بعد چینی ماہرِآثارِ قدیمہ اس علاقے میں قدیم انسانی تہذیب کے باقیات کی تلاش میں کمر بستہ ہوئے تو چین کی تاریخ کا سب سے قدیم اور سب سے بڑا مٹی کے مجسموں کا ذخیرہ اُن کے ہاتھ لگا۔ یہ جگہ قدیم چینی تہذیب کے سب سے پہلے شہنشاہ چین شی ہوانگ سے تعلق رکھتی ہے۔ مٹی کے بنے یہ آدمی تیسری صدی قبل از مسیح کے اوائل میں شہنشاہ کی ابدی زندگی میں اس کی حفاظت کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔
قدیم چینی روایات کے مطابق اس مقبرے کی تعمیر کا حکم شی ہوانگ نے اپنے اقتدار میں آنے کے بعد دیا تھا اور اس طرح اس مقبرے کی تعمیر اس کی زندگی میں ہی شروع ہوگئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس مقبرے کی تعمیر میں ۳۷ سال لگے، شہنشاہ کی وفات کے بعد بھی اس پر کام جاری رہا اور اس کی تعمیر میں قریب سات لاکھ مزدوروں نے حصہ لیا۔



مقبرے میں موجود عام آدمی کے قد و قامت کے یہ ہزاروں سپاہی اپنے منصب اور عہدے کے حساب سے کھڑے کیے گئے ہیں۔ سب سے بلند قامت مجسمے جو کہ اگلی صفوں میں کھڑے کیے گئے تھے، یہ سپہ سالاروںِ اور اہم فوجی منصب پر تعینات افراد کے ہیں جبکہ سپاہیوں کے مجسمے پچھلی قطاروں میں کھڑے پائے گئے ہیں۔ان مجسموں میں سپاہوں کے علاوہ رتھ اور گھوڑے بھی شامل ہیں۔مجسمہ سپاہیوں کی اس فوج میں سات ہزار کے قریب سپاہی، 130 رتھ (گاڑیاں)، 520 گھوڑے اور 150 گھُڑ سوار سپاہی بھی شامل ہیں۔ مقبرے میں ان سپاہیوں کے علاوہ اعلٰی عہدیدار، موسیقار، بازی گر و کرتب باز بھی شامل ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ چین شی ہوانگ کو ابدی زندگی میں صرف حفاظت کی ہی نہیں بلکہ تفریح کی بھی ضرورت تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان تمام مجسموں کے چہرے اور ان چہروں کے تاثرات بھی ایک دوسرے سے جداگانہ بنانے کی بہترین کوشش کی گئی ہے۔ کئی صدیاں مٹی میں گزارنے کے بعد یہ مجسمے سرمئی رنگ اوڑھے نظر آتے ہیں مگر در حقیقت ان کو رنگوں سے بھی مزین کیا گیا تھا اور کسی قسم کی کوئی کمی نہ چھوڑی گئی تھی۔
چین شی ہوانگ کو مقبرے میں دفناتے وقت اس کے ساتھ ان مجسموں کے علاوہ کثیر مقدار میں سونا، نیلم اور دیگر قیمتی پتھر بھی دفنائے گئے تھے اور مقبرے کے اُوپر mercury یعنی پارے کے بہتے ہوئے سو عدد دریا بھی بنائے گئے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مٹی کے یہ سات ہزار سپاہی اقتدار میں آنے والے اگلے بادشاہ جیانگ یو کے دورِ حکومت کے دوران اس مقبرے میں دفن کیے گئے قیمتی سامان کو لُٹتا ہوئے دیکھنے کے لیے تماشائی کے طور پر وہیں موجود تھے۔ بادشاہ کی ابدی زندگی میں حفاظت کرنے والی یہ مٹی کی فوج اس لوٹ کھسوٹ کے دوران کچھ بھی کرنے سے قاصر تھی۔ اب صدیاں گزر جانے کے بعد بھی یہ فوج جوں کی توں وہیں موجود ہے مگر فرق صرف اتنا ہے کہ اب مقبرے کے مقام پر ایک میوزیم بنا دیا گیا ہے اور ان مجسموں کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے لوگ چین کا رخ کرتے ہیں۔
بیشتر قدیم تہذیبوں میں اس طرح کے مقبرے دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ اُس دور کے انسانوں کی خام خیالی تھی کہ مرنے کے بعد ان کے بادشاہوں کو ابدی زندگی میں ان دنیاوی آسائشوں کی ضرورت پیش آئے گی جن سے وہ اپنی زندگی میں فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ زمانۂ قدیم میں شاید لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر تھے کہ جو بے جان چیز خود اُن کے اپنے ہاتھوں سے بنائی گئی ہے اور حرکت کرنے کے قابل نہیں وہ بعد ازاں کیا کرسکے گی اور ان کی حفاظت ک
ی کس طرح اہل ہوگی۔






No comments:

Post a Comment